امریکی ہتھیاروں کا سفر؛ سرکاری معاہدوں سے بلیک مارکیٹ تک

عبدان صافی
کچھ عرصے سے اس قسم کی پروپیگنڈہ مہم جاری ہے کہ گویا افغانستان میں امریکی شکست کے بعد، امارتِ اسلامی کے ہاتھ لگنے والے امریکی ہتھیار دیگر مسلح گروہوں کو دے دیے گئے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ زمینی حقائق کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ امارتِ اسلامی ایک ذمہ دار حکومت کی حیثیت سے اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔

افغانستان میں امارتِ اسلامی کی کامیابی کے بعد، اس کا پہلا اقدام یہ تھا کہ وہاں موجود ہتھیاروں کو محفوظ بنایا جائے تاکہ یہ غیر ذمہ دار افراد کے ہاتھ نہ لگیں۔ اسی طرح ملک کے اندر امریکی اسلحے کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت بعض ہمسایہ ممالک اس قسم کی پروپیگنڈہ مہم کیوں چلا رہے ہیں؟
اگر اس پر غور کیا جائے تو امریکہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے، جو اپنے تزویراتی مفادات، سیاسی اتحادوں اور دفاعی معاہدوں کی بنیاد پر درجنوں ممالک کو جدید ہتھیار فراہم کرتا ہے۔

امریکی معیشت میں اسلحہ سازی (دفاعی صنعت) کا ایک اہم کردار ہے۔ صرف 2023ء مالی سال میں امریکہ کا دفاعی بجٹ تقریباً 850 ارب ڈالر تھا، جو کہ امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تقریباً ۳،۱ فیصد بنتا ہے۔

سال 2022ء کو دنیا بھر میں ہونے والی اسلحے کی برآمدات کا %40 فیصد امریکہ کے حصے میں آیا۔ امریکہ کے اہم خریدار ممالک میں سعودی عرب، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔

لیکن ماضی کی مختلف مثالوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ ہتھیار اکثر اُن مقامات تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں ان کی موجودگی نہ صرف خطرناک ہوتی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی سمجھی جاتی ہے۔

ظاہری طور پر یہ اسلحہ قانونی طریقے سے کسی حکومت یا فوج کے حوالے کیا جاتا ہے، مگر بعد میں یہی اسلحہ جنگ کے میدانوں، کرپشن یا لاپروائی کے نتیجے میں غیر ریاستی مسلح گروہوں اور مجرمانہ نیٹ ورکس کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔

اسی طرح، امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ تک اکثر ان علاقوں کے ذریعے پہنچتا ہے جو جنگ زدہ ہوتے ہیں — وہ علاقے جہاں امریکی افواج یا ان کے اتحادی میدانِ جنگ میں اپنا اسلحہ چھوڑ دیتے ہیں، یا یہ اسلحہ مقامی ملیشیاؤں کو دے دیا جاتا ہے، جو بعد میں کرپشن یا شکست کی وجہ سے یہ ہتھیار دشمن گروہوں کے ہاتھ دے دیتے ہیں۔

داعش کو عراق اور شام میں امریکی اسلحہ حاصل ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے؛ یہ ہتھیار انہوں نے یا تو براہ راست میدانِ جنگ سے، یا پھر امریکی اتحادیوں کے چھوڑے گئے گوداموں سے حاصل کیے۔

یہ شک بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ شاید امریکہ نے یہ ہتھیار دانستہ طور پر داعش جیسے اپنے پراکسی گروہوں کے لیے چھوڑ دیے ہوں، تاکہ ان کے ذریعے مخصوص اہداف حاصل کیے جا سکیں۔

اسلحے کی منتقلی صرف جنگی میدانوں تک محدود نہیں ہے۔ بعض اوقات امریکہ بظاہر کسی ملک کو اسلحہ برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن وہی اسلحہ تیسرے ممالک کے ذریعے غیر ریاستی گروہوں اور عناصر تک پہنچ جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو دیے گئے ہتھیار صرف حوثیوں کے خلاف استعمال کے لیے تھے، لیکن رپورٹس کے مطابق بعد میں وہی ہتھیار خود حوثیوں تک پہنچ گئے۔ کچھ ہتھیار فروخت کر دیے گئے، کچھ پر جنگ میں قبضہ ہوا، اور کچھ کرپشن یا رشوت کے نتیجے میں منتقل کیے گئے۔

بلیک مارکیٹ کا ایک اور رخ وہ امریکی نجی اسلحہ فروش ہیں، جو بعض اوقات قانونی خلا یا غفلت کی وجہ سے ایسے افراد کو اسلحہ بیچ دیتے ہیں جن کے لیے اسے خریدنا قانونا جرم ہوتا ہے۔ بعد میں یہی ہتھیار اسمگلنگ نیٹ ورکس کے ذریعے سرحد پار پہنچ جاتے ہیں۔

لاطینی امریکہ میں منشیات فروش گروہوں، مثلاً میکسیکو کے کارٹیلز، کے پاس امریکی اسلحہ پایا گیا ہے، جن میں ’’Operation Fast and Furious‘‘ جیسی مثالیں شامل ہیں، جہاں خود امریکی حکام کی غلطی کی وجہ سے اسلحہ مجرموں تک پہنچ گیا۔
پاکستان، جو بظاہر افغانستان میں امریکی اسلحے کی موجودگی پر سب سے زیادہ شکایت کرتا ہے، خود بھی ان ہتھیاروں تک غیر قانونی رسائی کی متعدد مثالوں کا حامل ہے۔

چند سال قبل، امریکی امداد سے لدے ہوئے کنٹینرز، جن میں ممکنہ طور پر ہتھیار اور دیگر حساس اشیاء شامل تھیں افغانستان جاتے ہوئے پاکستان میں لاپتا ہو گئے یا ان پر حملے ہوئے۔

میڈیا رپورٹس اور پارلیمانی بیانات کے مطابق، ان کنٹینرز کو بعض پاکستانی جنرلوں یا فوجی افسران کی سرپرستی میں لوٹا گیا اور ان کے اندر موجود مواد بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا گیا۔

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ افغانستان کی جنگ کے دوران نیٹو کی رسد کا راستہ پاکستان تھا، اور اسی راستے سے بے شمار ہتھیار پاکستان میں داخل ہوئے، جنہیں کچھ فوجی اہلکاروں نے اپنے بینک اکاؤنٹس کو بھرنے کے لیے لوٹا۔

اسی طرح، صومالیہ میں الشباب، یمن میں القاعدہ، اور افریقہ کے دیگر جنگ زدہ علاقوں میں مختلف گروہوں کے ہاتھ امریکی اسلحہ لگا ہے۔ یہ ہتھیار یا تو براہ راست میدان جنگ سے، یا تیسرے ممالک کے ذریعے بلیک مارکیٹ سے حاصل کیے گئے۔
مندرجہ بالا تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ امریکی اسلحہ حاصل کرنا کسی بھی گروہ کے لیے مشکل کام نہیں، کیونکہ یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہے۔

اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری امریکہ اور اُن ایجنٹوں پر عائد ہوتی ہے جو پیسے کے لیے ہر چیز بیچنے کو تیار ہوتے ہیں۔
ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی فوج اور ریاستی اداروں میں موجود ہے

Share this post:
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Telegram

Recent posts