بہترین کامیابی دشمن کو لڑے بغیر شکست دینے میں ہے” — سن زو“
جنوب ایشیا: ایک خطرناک پراکسی جنگ کی طرف بڑھتا ہوا خطہ
جنوبی ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بظاہر یہ ایک روایتی بھارت-پاکستان کشیدگی نظر آتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک عالمی شطرنج کا کھیل ہے — ایک ایسا کھیل جس میں چین، امریکہ اور عالمی طاقتوں کا توازن براہ راست داؤ پر لگا ہوا ہے۔
یہ کوئی مقامی مسئلہ نہیں — یہ بڑی طاقتوں کی جنگ ہے۔
بیجنگ کا خفیہ ہاتھ
حالیہ انٹیلیجنس رپورٹس اور اسٹریٹیجک اشارے بتاتے ہیں کہ پاکستان کا جارحانہ رویہ — خاص طور پر #پہلگام_دہشتگردی_حملہ — بظاہر ایک خودمختار عسکری اقدام لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ چین کی ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ اسے جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، جو تیزی سے بیجنگ کے ماتحت آ چکی ہے۔
جنرل منیر کی کچھ ذاتی خواہشات بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں — جیسے تاریخ میں پہلی بار 10 سال کی آرمی چیف کی مدت حاصل کرنا — مگر اس پورے منصوبے کی نوعیت خالصتاً جیو پولیٹیکل ہے۔ چین اپنی حکمت عملی کے مطابق چالیں چل رہا ہے، اور منیر خوشی خوشی اس کا مہرہ بن چکے ہیں تاکہ وہ پاکستان پر غیرجمہوری حکمرانی کو مضبوط کر سکیں۔
چین کا نظریہ بڑا واضح ہے: کوئی بھی طاقتور ملک اپنے پڑوسیوں کی مضبوطی برداشت نہیں کرتا۔ جس طرح امریکہ نے اپنے علاقے میں حاوی ہو کر سپر پاور بننے کی بنیاد رکھی، چین بھی اب اسی راہ پر گامزن ہے — بھارت کو کمزور کرنا بیجنگ کے عالمی عزائم کے لیے ناگزیر ہے۔
چین اور پاکستانی اشتعال انگیزیوں کے درمیان براہ راست ثبوت تو نہیں، مگر حکمت عملی کی ہم آہنگی واضح ہے: بھارت مصروف ہو کر کمزور ہوتا ہے، پاکستان کی فوج اقتدار میں رہتی ہے، اور دونوں چین کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں — بغیر کھلے تصادم کے۔
یہ سازش نہیں — حقیقی سیاست ہے۔ چین کو احکامات دینے کی ضرورت نہیں، وہ صرف اپنے اتحادیوں کو باہمی مفادات کے لیے سہولت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ایئر فورس کو PL-15 جیسے جدید چینی میزائلوں کی فراہمی اس کی مثال ہے — جو بھارت کے رافیل طیاروں کے مقابلے میں توازن قائم کرنے کے لیے دیے گئے۔
چین کی گھیراؤ پالیسی: ایک طویل المیعاد منصوبہ
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “چینی کبھی براہ راست لڑائی نہیں کرتے”۔ ان کا یہ تجزیہ سن زو کے اصول سے ہم آہنگ ہے: “دشمن کی مزاحمت کو لڑے بغیر توڑ دینا بہترین کامیابی ہے۔”
گزشتہ دو دہائیوں میں چین نے سری لنکا، مالدیپ اور بنگلہ دیش میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ پاکستان آخری حد تھی — جو اب عاصم منیر کے تحت مکمل طور پر چین کی گود میں جا بیٹھا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مغربی جمہوری قوتوں، جن میں احتساب کی طاقت تھی، کے بجائے چین کے آمرانہ، خاموش اور طاقتور نظام کا انتخاب کیا۔ مغرب میں متحرک ڈائسپورا اور انسانی حقوق کی باتیں جرنیلوں کے لیے خطرہ تھیں، جب کہ چین “عدم مداخلت” کے اصول کے تحت دولت، تحفظ اور خاموشی فراہم کرتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اس جھکاؤ کو مزید تیز کر گیا۔ ان کے حامیوں، خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں نے مغربی دارالحکومتوں میں بھرپور لابنگ کی، جس کا نتیجہ امریکی کانگریس مین جو ولسن کی جانب سے “پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ” کی شکل میں سامنے آیا — جو عاصم منیر جیسے افسران پر پابندیوں کی سفارش کرتا ہے۔
اس دباؤ میں پاکستانی جرنیل پوری طرح چین کی طرف مڑ گئے۔
چین کو اس وقت جنگ کی کیوں ضرورت ہے؟
بیجنگ کے عزائم واضح ہیں:
بھارت کا ابھار روکنا: اسے فوجی تصادم میں الجھا کر اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانا۔
بھارت کو اندر سے توڑنا: مذہبی اور نسلی اختلافات، خاص طور پر ہندو-مسلمان کشیدگی کو بھڑکا کر ریاست کو کمزور کرنا۔
چینی صنعت کو بچانا: چونکہ امریکی تجارتی پابندیاں عروج پر ہیں اور ایپل جیسی کمپنیاں بھارت منتقل ہو رہی ہیں، جنگ بھارت کو ایک ناقابل اعتبار متبادل بنائے گی۔
چین کو خطرہ ہے کہ اگر بھارت اب نہیں رکا، تو پھر کبھی نہیں رکے گا۔
عسکری کشیدگی: کشمیر سے بحیرہ عرب تک
گزشتہ دنوں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر میں اشتعال انگیز کارروائیاں بڑھا دی ہیں — بالخصوص امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے دورۂ بھارت کے دوران — تاکہ واشنگٹن کو پیغام دیا جا سکے کہ بیجنگ اور اس کے اتحادی محاذ آرائی کے لیے تیار ہیں۔
فوجی ذرائع کے مطابق:
پاکستان نے چینی سیٹلائٹ انٹیلیجنس کے ذریعے بھارتی شہروں کے میزائل حملوں کے اہداف طے کیے ہیں۔
ممکنہ جنگ کی صورت میں چین کی لاجسٹک اور نیویگیشنل مدد سے گہرے حملے کیے جائیں گے۔
ترکی سے خفیہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔
فوجی افسران کے خاندان خاموشی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں — جو لمبی جنگ کی پیش بندی ظاہر کرتا ہے۔
اسی دوران، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے بظاہر امن پر مبنی گفتگو کی، مگر درپردہ چین نے پاکستان کی “انسدادِ دہشتگردی” کی کوششوں کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
پارلیمانی غلامی: چین کے سامنے ہتھیار ڈالنا
چین اب پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر چند اہم معاہدوں کو منظور کرے، جن میں شامل ہیں:
بلوچستان کے ساحل پر چینی بحری اڈے کا قیام
کراچی میں چینی خفیہ ایجنسی MSS کا مستقل مرکز
پاکستان کے اہم قدرتی وسائل پر چین کو مکمل اجارہ داری
یہ شراکت داری نہیں — یہ باقاعدہ غلامی ہے، جسے “قومی سلامتی” اور “علاقائی خطرات” کا پردہ ڈال کر نافذ کیا جا رہا ہے۔
یہ حکمتِ عملی ہے یا خودکشی کا معاہدہ؟
جنرل منیر شاید سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی “وراثت” محفوظ کر رہے ہیں، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان کی حکمتِ عملی پاکستان کو ایک ایسی بند گلی میں لے جا رہی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
بھارت کی مضبوط معیشت اور مغرب کے ساتھ گہرے تعلقات اسے ہر میدان میں طاقتور بناتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف، پاکستان اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کی ایک چونکا دینے والی بات منظرِ عام پر آئی ہے، جس میں انہوں نے بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کو ISI اور چینی MSS کی سازش قرار دیا — ایک ایسی بات جو یا تو انتہائی تشویشناک ہے یا شدید فریب پر مبنی۔ انجم کا عاصم منیر سے اختلاف اس بات کا اشارہ ہے کہ ادارے کے اندر قیادت بکھر چکی ہے۔
اصل خطرہ: عالمی جنگ کا آغاز؟
اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کسی محدود جنگ کی تیاری ہے، یا پھر ایک بڑی تباہی کی پیش خیمہ؟
امریکی انٹیلیجنس کو چین کے علاقائی منصوبوں کی شدت کا اندازہ ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ محتاط بیان بازی بھی اس خدشے کی عکاس ہے کہ جنوبی ایشیا میں جنگ چین کے عالمی خواب کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔
مگر پاکستان کا پراپیگنڈہ ادارہ — ISPR اور ISI کی میڈیا ونگ — قوم کو مسلسل بھارت کو دشمن اور منیر کو ہیرو بنا کر جنگی جنون میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔
اگر جنگ شروع ہوئی:
امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کی حمایت کریں گے
چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا
بنگلہ دیش اور دیگر چینی اتحادی ریاستیں نئی جنگی محاذ بن سکتی ہیں
یہ صرف بھارت-پاکستان کی جنگ نہیں ہو گی۔ یہ 21ویں صدی کی پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے — جو دنیا میں طاقت کے توازن کو مغرب سے چین کی طرف منتقل کر سکتا ہے، جیسے دوسری جنگِ عظیم نے برطانیہ سے امریکہ کو عالمی طاقت بنایا تھا۔
نتیجہ: وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے
پاکستان نے اپنی خودمختاری کسی فوجی حملے کے ذریعے نہیں، بلکہ ایک “سوچی سمجھی” غلامی کے ذریعے کھو دی ہے۔ اس کے جرنیلوں نے قوم کی تقدیر ایک غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں گروی رکھ دی ہے۔
مگر اس خطرناک کھیل میں اصل قربانی عوام دے گی — پاکستانی، بھارتی اور پورے خطے کے شہری۔
عاصم منیر کی جنونیت، جس کا آغاز #پہلگام_دہشتگردی_حملہ سے ہوا، تاریخ میں صرف ایک غلطی کے طور پر نہیں، بلکہ ایک تباہی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اگر اسے روکا نہ گیا، تو پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
یوکرین کے بعد، جنوبی ایشیا عالمی طاقتوں کی نئی جنگ کا اگلا میدان بننے جا رہا ہے۔
یہ صرف پاکستان یا بھارت کا مسئلہ نہیں — یہ دنیا کے لیے ایک الارم ہے۔