ایک پاؤ ساکھ کے بدلے پورا ادارہ کس نے داو پہ لگا دیا؟ جنرل عاصم ملک کے لیے اھم سوال؟

گزشتہ ہفتے لندن کی ہائی کورٹ میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سیکٹر کمانڈر، راشد نصیر کا ہتکِ عزت کا مقدمہ عادل راجہ کے خلاف سنا گیا۔ یہ مقدمہ 2022 میں دائر کیا گیا، جب راشد نصیر پنجاب کے سیکٹر کمانڈر تھے اور عملی طور پر سب سے بڑے صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے تھے۔

راشد نصیر کا مؤقف تھا کہ عادل راجہ کے بیانات نے ان کی شہرت کو برطانیہ میں نقصان پہنچایا، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ ساکھ کو بھی ٹھیس پہنچی۔ اس کے برعکس، عادل راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے بیانات حقیقت پر مبنی اور عوامی مفاد میں تھے، اور وہ آج بھی ان پر قائم ہیں۔

یہ مقدمہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ عمومی طور پر اس نوعیت کے بیشتر مقدمات عدالت کے باہر وکلاء کے درمیان ہی طے پا جاتے ہیں، اور صرف پانچ فیصد ہی ٹرائل مرحلے تک پہنچتے ہیں۔ یہ کیس انہی پانچ فیصد میں شامل تھا۔

قانونی نکات اپنی جگہ، لیکن اس مقدمے کا ایک اہم ترین پہلو آئی ایس آئی اور اس کی قیادت، خاص طور پر موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم ملک سے جڑے چند سنجیدہ سوالات کا متقاضی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقدمہ دراصل 2022 میں آئی ایس آئی کے ایماء پر دائر کیا گیا، جس کا مقصد عادل راجہ کو خاموش کروانا اور ان کی ساکھ کو مجروح کرنا تھا۔ شاید یہ سوچا گیا تھا کہ مقدمے کی طوالت، قانونی پیچیدگیاں اور مالی دباؤ کے ذریعے عادل راجہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے گا، اور یوں ادارے اور اس کے سابق افسر کی عزت افزائی ہوگی۔ اس منصوبے پر کروڑوں خرچ کیے گئے، جبکہ عادل راجہ نے بھی بھاری اخراجات برداشت کیے، لیکن وہ ڈٹا رہا، بھاگا نہیں، اور بالآخر عدالت کے روبرو چار روزہ سماعت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اور ان چار دنوں میں بھرپور دفاع سے سب کو متاثر کیا۔

معاملہ یہاں تک ہوتا تو بھی بات قابلِ فہم تھی، مگر پھر وہ کچھ ہو گیا جو شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب ضروری ہے کہ موجودہ قیادت اس “بلنڈر” پر سنجیدگی سے غور کرے اور تحقیق کرے کہ وہ کون سا ’ارسطو‘ تھا جس نے یہ مشورہ دیا کہ لندن ہائی کورٹ میں چار دن تک اپنے ہی ادارے کے کرتوتوں کا پردہ چاک کروایا جائے۔ ان گنت زیادتیاں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنی!

چشم دید گواہوں نے دیکھا کہ راشد نصیر نے اپنی ساکھ کی خاطر اپنے ہی ادارے کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مقدمے کے دوران نہ راشد نصیر اور نہ ہی ان کے وکلاء نے آئی ایس آئی کا دفاع کیا۔ جب بھی ادارے کی دستاویزی زیادتیوں کا ذکر آیا، صرف اتنا کہا گیا کہ “یہ سب ممکن ہے، لیکن راشد نصیر کا ان میں کوئی کردار نہیں!” اس بات کو چھپانے کے مجبور اور بے بس پاکستانی میڈیا سے پھیکی اور جھوٹی سٹوریاں تو کروا لی لیکن حقیقت تو کاغذات کی صورت ہمیشہ کے لیک محفوظ ہو گئی

اس بے تدبیری کے نتیجے میں کئی وہ باتیں جو پہلے صرف اخباری بیانات یا قیاس آرائیوں تک محدود تھیں، اب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ارشد شریف کے قتل میں ایجنسیوں کے مبینہ کردار سے لے کر سینئر صحافی شائین صہبائی پر ’واشنگ مشین چوری‘ جیسے جھوٹے مقدمات تک سب کچھ عدالتی فائلوں کا حصہ بن گیا ہے۔

اب عدالت فیصلہ محفوظ کر چکی ہے۔ جج نے واضح کیا ہے کہ فیصلہ صرف اس نکتے پر ہو گا کہ کیا ہتکِ عزت ہوئی یا نہیں — یہ نہ آئی ایس آئی کو کلین چٹ دے گا، نہ مجرم قرار دے گا۔ آنے والے دنوں میں یا تو راشد نصیر جیتیں گے، یا عادل راجہ۔ لیکن ان چار دنوں میں، ایک ناعاقبت اندیش فیصلے کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے بہت سے راز لندن کی عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔

اس ساری صورتِ حال کا الزام عادل راجہ پر نہیں ڈالا جا سکتا، کیونکہ مقدمہ انہوں نے نہیں بلکہ راشد نصیر نے کیا تھا۔ راجہ صرف اپنا دفاع کر رہا تھا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ راشد نصیر نے اپنی “آدھ پاؤ ساکھ” کے لیے پورا ادارہ دنیا کے سامنے ننگا کروا دیا!

یہ لمحۂ فکریہ ہے، اور جنرل عاصم ملک کو ضرور سوچنا چاہیے کہ کس طرح کروڑوں خرچ کر کے بدنامی خریدی گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون ہے جو ہر دن مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی باتوں کو درست ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے؟

Mirza Shahzad Akbar is a Pakistani barrister and former politician who served as Advisor to Prime Minister Imran Khan on Interior and Accountability from 2018 to 2022. A prominent human rights lawyer, he co-founded the Foundation for Fundamental Rights, focusing on constitutional rights and representing civilian victims of U.S. drone strikes in Pakistan. With an LLB from the University of London and an LLM from Newcastle University, Akbar has also worked as a special prosecutor for Pakistan’s National Accountability Bureau and holds a Legal Fellowship at Reprieve.

Share this post:
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Post comment

Recent posts