امن کی راہ ہی پائیدار ترقی کی راہ ہے: عمران خان کا امن افغانستان کا پیغام

یہ بات کہنا حق بجانب ہوگا کہ عمران خان موجودہ دور کے وہ واحد قومی لیڈر ہیں جو اسلامی اخوت کا بین الاقوامی سطح پر پرچار کرتے ہیں اور پختون ولی کی علاقائی رسومات کو سمجھتے ہوئے پاکستان اور افغانستان میں بٹے قبائل کے درمیان ہم آہنگی کی اہمیت کو جانتے ہوئے اسے ایک طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کی فوج پنجاب کی سوچ کے تحت اس اہم ترین نقطہ نظر اور اس اتحاد کی طاقت کو ڈالروں کی لالچ میں بھول چکی ہے۔ حالانکہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا، افغان قوم پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی۔ مگر یہ دوستی اب زبردستی دشمنی میں بدلنے کی کوشش ہوتے نظر آتی ہے، جس کا ادراک اور درد عمران خان کو واضح طور پر قید تنہائی میں بھی ہے۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل میں اپنے قید تنہائی کے دوران جو اہم پیغام جاری کیا ہے، وہ نہ صرف ملکی سیاست بلکہ خطے کی سلامتی کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ اس پیغام کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت، دونوں ممالک کے درمیان آباد قبائل کی برادری اور اس وقت کی جا رہی فوجی کارروائیوں کے تباہ کن اثرات پر مرکوز ہے۔

عمران خان نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ پاکستان کی فوجی قیادت، خاص طور پر جنرل عاصم منیر، “افغانستان کی موجودہ حکومت کی مخالف لابی کو خوش کرنے کی کوشش میں کم عقلی کا مظاہرہ” کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان کی حکومت کے دور میں خطے میں جو پرامن ماحول قائم ہوا تھا، اسے دانستہ طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا گمبھیر الزام ہے جس پر قوم اور حکومت دونوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا کہ کئی دہائیوں کی مہمان نوازی کے باوجود موجودہ دور میں افغان شہریوں کو “دھکے دے کر ملک سے باہر نکالا” گیا۔ یہ عمل نہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کے مطابق ہے اور نہ ہی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے، خاص طور پر اس وقت جب افغانستان ایک تباہ کن زلزلے سے نمٹ رہا ہو۔ ایسے میں پاکستان کا فرض تھا کہ وہ اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا ہاتھ بڑھاتا مگر الٹا عاصم منیر نے افغانستان پر فضائی حملہ کروا کے معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل کروایا۔

عمران خان کے پیغام کا سب سے اہم پہلو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ موجودہ فوجی آپریشنز اور ڈرون حملے دراصل “تحریک انصاف کی عوامی مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کو غیر مقبول کرنے کے لیے” کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کا دورہ کریں اور باہمی مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ایک دانشمندانہ تجویز ہے، کیونکہ جنگ اور تصادم نے گزشتہ چار دہائیوں میں ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے تباہی، بدامنی اور معاشی پسماندگی کے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل نہ صرف نسلی اور لسانی طور پر ایک ہیں بلکہ ان کے رشتے دار دونوں طرف آباد ہیں۔ ایک مصنوعی سرحد نے ان کے درمیان جدائی کی لکیر ضرور کھینچ دی ہے، لیکن وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ فوجی کارروائیاں اور ڈرون حملے ان کے دلوں میں دوریاں اور اختلافات پیدا کر رہے ہیں، جس کا نقصان دونوں ممالک کو اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کی سلامتی کا انحصار افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات پر ہے، نہ کہ اسے دھمکیاں دینے یا اس کے شہریوں کو ستانے پر۔

عمران خان کا یہ پیغام درحقیقت ان کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جس میں وہ پورے خطے میں امن اور باہمی تعاون کے خواہاں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خوف اور جبر کی پالیسیوں کے بجائے بات چیت اور تعاون ہی پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ موجودہ فوجی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی تنگ نظر پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور افغانستان کے ساتھ بھائی چارے اور پرامن بقائے باہمی کے راستے پر چلنے کی کوشش کرے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے عوام غربت، بیماریوں اور قدرتی آفات جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ باہمی دشمنی اور تصادم ان مسائل کو اور گمبھیر بنا دے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادتیں بیٹھ کر مسائل کو پرامن طریقے سے حل کریں، تاکہ آنے والی نسلیں امن اور خوشحالی کی فضا میں سانس لے سکیں۔

عمران خان کا یہ پیغام محض ایک سیاستدان کا بیان نہیں، بلکہ ایک دور اندیش قومی رہنما کا وژن ہے، جسے نظرانداز کرنا قومی مفاد کے بالکل خلاف ہوگا۔

Share this post:
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Post comment

Recent posts