گیدڑ کی موت: لندن کی خاک چھانتی سازش اور پاکستان کی اندرونی جنگ

بیس سال پہلے ملک کے سب سے بڑے مافیا کے بارے میں اپنی فلم 

Two Billion Hostages

میں نے پاکستانیوں کو یاددہانی کرائی تھی کہ ایک جنرل سالا پوری فوج کو ہیجڑا بنا دیتا ہے
تب ہماری قوم بشمول موجودہ مزاحمت کے بڑے بڑے جغادری اس فوج کے رومانس میں بری طرح مبتلا تھےاور مجھے ہر طرح کی طعن و تشنیع، ابتلا اور صعوبتوں سےگذرنا پڑا. بیس سال بعد میں خداۓ عزوجل کا انتہائی شکر گذار ہوں کہ ہماری قوم کی اکثریت اس ظلم اور جبر سے نہ صرف آشکار ہو چکی ہے بلکہ اس کے خلاف سینہ سپر ہے. یہ عمران خان اور ان کے نامی گرامی اور گمنام مجاہدوں کا بہت بڑاکارنامہ ہے۔

مقبوضہ پاکستان کے عوام اور اس پہ قابض فوج ایک دوسرے کے خلاف اس وقت اپنی تاریخ کی سب سے عظیم جنگ لڑرہے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی. مقبوضہ پاکستان پہ قابض عناصر میں سب سے طاقتور اور ظالم اس کی غیر اسلامی ناپاک فوج ہے جس کے جرنیلوں نے نہ صرف پوری فوج کو ہیجڑا بنا کے رکھ دیا ہے بلکہ ملک کے عوام کے خلاف اپنے بقا کی جنگ شروع کر رکھی ہے جسے وہ آہستہ آہستہ ہارتے جا رہے ہیں.۔

جرنیلوں کے خلاف اس جنگ میں عوام کے ساتھ ساتھ بہت سی نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں جن میں سے ایک عادل راجہ کی ہے جو اپنی سیماب صفت حرکات و سکنات کی وجہ سے

ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی زندہ مثال ہیں.. 

اوپر بیان کئے تناظر میں ایک بہت ہی اہم جنگ ہو رہی ہے جو مقبوضہ سرزمین سے بہت دور ابھی- لندن خاندان ( شریفوں) کے ملک انگلینڈ میں ہے اور اسے شروع کرنے میں عادل کا نہیں بلکہ ان ظالم بددیانت جرنیلوں کا ہاتھ ہے.. ان میں سے ایک زنانہ بریگیڈئر لوسی(‘ر  ن’ جس کا مطلب عورت ہوتا ہے)، کی شخصیت، اس کی حماقتیں، پاکستانی بے حس اداروں کا بدکردار نے اپنے آقاؤں کی مدد سے اس ڈفر نے اپنے مفاد کی خاطراپنے بے حس ادارے کی مذموم حرکات عدالت میں لانے کا فیصلہ کیا – اور اس کا تختہء مشق عادل راجہ کو بنایا ۔۔ اس کا خیال تھا کہ ایک بے یارو مددگار اپنے ملک سے مجبورا نکلا ہوا ریٹائرڈ فوجی اس مقصد کے لیۓ ایک بہترین شکار ہے۔۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ان کا اندازہ غلط نکلا۔۔ عادل لوہے کا ایک چنا نکلا-

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کا ُرخ کرتا ہے جب کوئی ظالم بزدل یا مکار شخص اچانک خطرے کی جگہ یا کسی طاقتور
کے مقابل آ کھڑا ہو یعنی وہ کام کرے جو اس کی حیثیت یا فطرت کے خلاف ہو، تو یہ حرکت اس کا انجام قریب کر دیتی ہے۔اگر کوئی کمزور ریٹایرڈ چالباز شخص اچانک دوسروں کو للکارے، یا کوئی بزدل لڑاکا مید ِ ان جنگ میں کود پڑے، تو کہیں
گے: اب گیدڑ کی موت آئی ہے، اس لیے شہر کا ُرخ کر لیا ہے
کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک گیدڑ رہتا تھا۔ یہ کوئی عام گیدڑ نہ تھا، نہایت ہوشیار بننے والا، مگر اندر سے بزدل، کمزور،
اور موقع پرست۔ اس کا نام تھا لوسی۔ وہ ہمیشہ خود کو عقلمند، باخبر، اور “اندر کی باتیں جاننے والا” کہتا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ جو بھی طاقتور ہوتا، اس کے ساتھ مل کر دوسروں کے خلاف سازشیں کرتا، اور جو بھی حق پہ ہوتا، اسےکسی نہ کسی طرح نیچا دکھانے کے لیے ریاست کے تمام وسائل اس شخص کے خلاف جھونک دیتا۔ لیکن اصل میں، اس کے پاس نہ کوئی ثبوت ہوتے تھے، نہ عقل، نہ کردارصرف ایک زہریلی سوچ، اور سازشی ذہن۔
لوسی کبھی بے حس ادارے میں اہم عہدوں پر فائز رہا، دعو ٰی کرتا تھا کہ اسے دنیا کے لمبر ون ادارے نے ایسی تربیت دی ہے، اور وہ “اندر کی دنیا” کو جانتا ہے۔ لیکن وقت بدلا، اقتدار کے جھونکے تبدیل ہوئے، اور لوسی  کے جھوٹ پکڑے جانے لگے۔ وہ بار بار ایک ہی جھوٹ کو نیا میک اپ کر کے پیش کرتا۔ کہتا کہ وہ “سچ بول رہا ہے،” جبکہ وہ صرف ذاتی بدلے، حسد اور مایوسی میں بول رہا ہوتا۔

عادل ، لوسی کی حرکات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ شخص نہ صرف عوام کو گمراہ کر رہا ہے بلکہ ملک کی سالمیت پر بھی ضرب لگا رہا ہے۔ اس نے دلائل، ثبوت، اور باوقار انداز میں اس گیدڑ کی سازشیں بےنقاب کیں۔ لوسی یہ برداشت نہ کر سکی۔ چنانچہ اُس نے لندن جا کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایالیکن نہ حقائق تھے، نہ شہادتیں۔ بس الزام، نفرت، اور جھوٹ۔ عادل کی اس جنگ میں شہزاد اکبر اور شاہین صہبائی نے بھی مورچے سنبھالے ۔ اگر اس میں اس میدان کے ایک بڑے شہسوار اور بے حس ادارے کے سب سے بڑے مضروبوں میں سے ایک، عمران ریاض خان کو شامل کیا جاتا تو اس میں کہیں زیادہ وزن پیدا ہو جاتا ۔ وقت آ چکا ہے کہ سب لوگ جو اس مقصد پہ یقین رکھتے ہیں اپنے اختلافات انا اور مفادات نظر انداز کر کے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور دل و جان سے ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ 

لندن کی عدالت میں جج نے پوچھا “کیا آپ کے پاس کوئی معتبر ثبوت ہے کہ عادل نے آپ کو نقصان پہنچایا؟ “لوسی نے خاموشی سے نظریں جھکا لیں۔ بس وہی پرانی باتیں، وہی گھسی پٹی کہانیاں، جنہیں عدالت نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔

ملک کی بدنامی، لیکن فائدہ کسے؟

گیدڑ نے ہمیشہ کی طرح اپنی لالچ اور ذاتی مفاد میں ملک کو گھسیٹا، بے حس ادارے کے جغادریوں نےاس کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ درپردہ معاونت بھی کی، عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر وہ بھول گیا کہ

“قومیں کردار سے بنتی ہیں، اور کردار جھوٹ سے نہیں بگڑتا۔”

اس کی باتیں اب صرف چند “ریٹویٹ باز” سن رہے ہیں، وہ بھی ہنستے ہوئے۔ کہانی وہی پرانی ہے، انجام بھی۔ جب گیدڑ کی موت آتی ہے، تو وہ شہر یا لندن کا ُرخ کرتا ہے۔ لیکن وہاں جا کر اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ وہاں جنگل کی خاموشی ہے، نہ یوٹیوب کے فالوورز کا ہجوم۔ وہاں صرف عادل ہے جو اس کا ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔

:سبق

سچائی دیر سے سہی، مگر واضح ہو جاتی ہے۔ ●

ذاتی نفرت میں قومی اداروں (جو جتنے بھی بے حس ہوں) کو گھسیٹنا احمقوں کی سیاست ہے۔ ●

جھوٹ بولنے والا جتنا بھی چالاک ہو، وقت اسے بےنقاب کر دیتا ہے۔ ● 

بیس سال پہلے جب میں نے اپنی فلم دو ارب یرغمالی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ “ایک جنرل سالا پوری فوج کو ہیجڑا بنا دیتا ہے”، تو ہمارے ‘قوم پرست’ دوست مجھ پہ یوں جھپٹ پڑے کہ میں نے سوچا “یار، کیا ہی اچھا ہوتا اگر میں یہ فلم بنانے کی بجاۓ منا بھائی کا سیکوئل بنا لیتا

لیکن آج الحمدللہ، قوم کی اکثریت اس “ہیجڑا فیکٹری” سے باہر نکل چکی ہے۔

مقبوضہ پاکستان کا سب سے بڑا ریئلٹی شو: “فوج بمقابلہ عوام” پاکستان میں ایک ایسی جنگ چل رہی ہے جو “ایک تھا ٹائیگر” سے بھی زیادہ ڈرامائی ہے۔ ایک طرف “ناپاک فوج” ہے جو اپنی “بقا کی جنگ” لڑ رہی ہے، اور دوسری طرف عوام ہیں جو “ٹوئٹر اور عدالتوں” کے ذریعے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ درمیان میں کچھ ایسے مہمان بھی ہیں، جن میں سیماب صفت عادل راجہ ہیں، جو “ادھر ڈوبے، ادھر نکلے” کے مصداق ہمہ جہت ہیں۔

لوسی-رن: وہ زنانہ فوجی جو لندن کو اپنا “کھیل کا میدان” سمجھ بیٹھا اس ڈرامے کا مرکزی ولن ہے لوسی-رن ( ایک زنانہ نام جس کا مطلب ہے “عورت” اور زنانہ حرکات کی وجہ سے اس کا نام ہی کافی ہے پورے ڈرامے کے لیے!)۔ یہ شخصیت اپنی “حماقتوں، جھوٹ اور سازشوں” کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس نے سوچا کہ “چلو ایک ریٹائرڈ فوجی کو نشانہ بنا کر اپنی شہرت تازہ کر لیں،” مگر یہ نہیں پتا تھا کہ عادل راجہ “لوہے کا چنا” نکلیں گے۔

سپورٹنگ کاسٹ: شہزاد اکبر، اور شاہین صہبائی جیسے مشہور اور دلیر لوگ.. ان میں عمران ریاض خان کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی وہ اس مقصد کے لئے ایک شاندار کردار ثابت ہوتے

عادل راجہ اکیلے ہی لوسی کے خلاف “ون مین آرمی” نہیں بن گئے۔ ان کے ساتھ کچھ اور “ڈرامے کے ہیرو” بھی میدان :میں کود پڑے

شہزاد اکبر – جو لوسی کے جھوٹ کو “ٹیکنیکل ناکے” سے پکڑنے میں ماہر ہیں۔ .1 شاہین صہبائی – جو “ڈیٹا اور حقائق” کے ہتھیار سے لوسی کی سازشوں کو بےنقاب کر رہی ہیں۔ .2 عمران ریاض غائب رہے – جو “عدالتی جنگ” میں اپنی تجربہ کاری سے لوسی کو “چیک میٹ” دے رہے ہیں۔ .3 اگر ان تینوں کو “پاور رینجرز” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا – لوسی کے خلاف ایک مضبوط ٹیم

“عدالت کا ڈرامائی سین: “کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟

لندن کی عدالت میں جب جج نے لوسی سے پوچھا: “کیا آپ کے پاس کوئی معتبر ثبوت ہے کہ عادل نے آپ کو نقصان “پہنچایا؟ لوسی نے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی کیونکہ جھوٹے کے پاس فرار کے سوا کچھ نہیں ہوتا

:اخلاقی سبق

  1. سچ کو چھپانے کے لیے لندن تک بھاگ جانے سے کچھ نہیں ہوتاسچ پھر بھی سامنے آ جاتا ہے .
  2. !”جھوٹے چاہے جتنے بھی طاقتور ہوں، آخرکار ان کا “گیدڑ والا انجام” ہوتا ہے” .
  3. شہزاد اکبر، شاہین صہبائی اور عمران ریاض جیسے لوگ ہوں تو انصاف کی راہ آسان ہو جاتی ہے” .

:اختتامیہ ”لوسی جیسے گیدڑوں کو یاد رکھیں”جو لندن کی خاک چھانتے ہیں، وہ آخرکار اپنی ہی خاک چھاننے پر مجبور ہو جاتے ہیں

Share this post:
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Post comment

Recent posts