صدارتی خواب یا آئینی بغاوت؟ آرمی چیف کے ارادے زیرِ بحث

اسلام آباد ایوانِ اقتدار میں پھیلتی سرگوشیاں :- پاکستان کے موجودہ آرمی چیف صرف ڈی فیکٹو حکمران کے کردار سے عدم مطمئن ہیں ،اطلاعات ہیں کہ وہ اب ایک محتاط طور پر تیار کی گئی ’’آئینی بغاوت‘‘ کے ذریعے ایوانِ صدر تک پہنچنا چاہتے ہیں — ایک ایسا اقدام جو بظاہر قانونی ہو مگر در حقیقت فوجی طاقت پر مبنی ہو۔

یہ منظر نامہ نیانہیں 

پاکستان کی تاریخ اسکندر مرزا سے ایوب خان، ضیاء الحق سے پرویز مشرف تک فوجی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال کو تشویشناک اس لیے کہا جا رہا ہے کہ اس بار امکان یہ ہے کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلا جائے، اور آرمی چیف خود کو ’’فیلڈ مارشل /صدر‘‘ کے طور پر مسلط کر دیں یوں ’’آئینی اصلاحات‘‘ کے نام پر ون مین شو کا اطلاق کر دیا جائے ۔

صدارتی نظام کا راستہ

2010 میں اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں ایک سنگ میل تھی۔ اس نے صوبوں کو بااختیار جبکہ پارلیمان کو مضبوط کیا اور صدر کے ان اختیارات کو محدود کیا جنہیں فوجی حکمران ماضی میں بے دریغ استعمال کرکے من مانی کرتے آ رہے تھے۔

لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ستائیسویں ترمیم کی چہ میگوئیاں سنائی دے رہی ہیں — یعنی اٹھارہویں ترمیم کے حصے واپس لینے کی کوشش، تاکہ اختیارات ایک بار پھر اسلام آباد مرکز کے پاس واپس آئیں اگر یہ ترمیم لائی گئی تو یہ ایک نئے نظام کے لیے قانونی ڈھال وجواز بنےگی۔

صدارتی نظام لانے کے لیے تین دلائل دیے جاتے ہیں:

  1.  اختیارات کا ارتکاز: پارلیمانی وفاقی نظام میں طاقت کے کئی مراکز ہوتے ہیں جو فوجی پشت پناہی رکھنے والے حکمران کے لیے ’’غیر موزوں ‘‘ ہیں۔ صدارتی نظامسے تمام فیصلہ سازی ایک ہی جگہ / دفتر کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔
  2.  مالیاتی کنٹرول: اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت زیادہ وسائل ملے۔ اس کی واپسی مرکز کو دوبارہ پیسہ اور حکومت دونوں پر اجارہ داری دے گی۔
  3.  بیانیے کی ازسرِنو تجدید : اٹھارہویں ترمیم پیپلز پارٹی (زرداری) اور ن لیگ (شریف خاندان) کی وراثت سمجھی جاتی ہے۔ اس کی واپسی ان کی سیاسی چھاپ کو کمزور کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملے گا کہ اس نے ’’کرپشن اور خاندانی سیاست‘‘ والے نظام کی اصلاح کر دی۔

’’قانونی‘‘ بغاوت کا پردہ

اگر مقصد پارلیمانی جمہوریت کو توڑنا ہے تو پھر ترمیم اور آئینی جواز کی ضرورت کیوں؟
اس لیے کہ آپٹکس (ظاہری تاثر) اہم ہے۔ ستائیسویں ترمیم جیسا قدم یہ تاثر دے گا کہ یہ اصلاح ہے، بغاوت نہیں۔

اس سے ملے گا

  • قانونی پردہ: قابو میں لائے گئے پارلیمان سے منظور شدہ ترمیم کو جمہوری عمل کے طور پر عوام میں بیچا جا سکتا ہے۔
  •  بیانیے کا کنٹرول: اسٹیبلشمنٹ عوام اور دنیا کو باور کروا سکتی ہے کہ وہ نظام کو بگاڑ نہیں بلکہ ’’درست‘‘ کر رہی ہے۔
  •  تدریجی حکمتِ عملی: براہِ راست شب خون مارنے کے بجائے اداروں کو آہستہ آہستہ کمزور کیا جائے، عدلیہ، میڈیا اور عوام کی مزاحمت کو پرکھا جائے، پھر مزید قدم بڑھایا جائے۔

اختتامی منظر: فیلڈ مارشل بطور صدر

ابھرنے والا منظر نامہ یہ ہے کہ آرمی چیف جسے ناقدین ’’مستری‘‘ اور ’’فریبی‘‘ کہتے ہیں اپنے آپ کو ڈی فیکٹو حکمران سے ڈی جوری صدر میں بدلنے جا رہے ہیں، اور وہ بھی نئے صدارتی نظام کے لبادے میں۔

اس کے نتائج ہوں گے

  •  تمام طاقت کا مرکزو محور ایک عہدہ
  •  سیاسی جماعتوں اور صوبائی خودمختاری کی کمزوری
  •  پارلیمان کا محض ربڑ اسٹیمپ ادارہ بن جانا
  •  فوج کا آئینی رکاوٹوں سے آزاد ہو کر کام کرنا، جیسا کہ ماضی کی مارشل لا حکومتوں میں ہوتا رہا

یعنی یہ پاکستان کے آہستہ آہستہ شخصی فوجی حکمرانی کی طرف گامزن ہونےکا نیا نہیں بلکہ فرسودہ راستہ ہے، بس آئینی نقاب کے پیچھے چھپا ہوا

 

نتیجہ :- خطرناک رجعت

پاکستان یہ سب پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ ہر بار جرنیلوں نے استحکام، اصلاحات اور کارکردگی کا وعدہ کیا لیکن ہر تجربہ کمزور اداروں، مزید کرپشن اور تقسیم شدہ سیاست پر ختم ہوا۔

اگر آج کا آرمی چیف بھی یہی راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ کوئی نیا نظام نہیں بلکہ ایوب، ضیاء اور مشرف کی آمریت کا پرانا پلے بک دہرایا جائے گا ۔

ایک فیلڈ مارشل-صدر کا صدارتی نظام کے تحت پاکستان پر حکمرانی نیا آرڈر نہیں، بلکہ ایک خطرناک واپسی ہوگی جو گزشتہ دہائی میں حاصل ہونے والی نازک جمہوری کامیابیوں کو کمزور کر دے گی اور ایک بار پھر طاقت ایک وردی والے شخص کے ہاتھ میں دے دی جائے گی۔

Share this post:
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Post comment

Recent posts